Tuesday, August 6, 2019

کشمیر بن گیا فلسطین



کشمیر بن گیا فلسطین

بھارتی پارلیمنٹ نے آرٹیکل 370 اور دفعہ 35 اے منسوخ کردیا ہے , یہ ہے کیا آئیے آپ کو بتاتے ہیں

 دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں وکشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ یہ دفعہ جموں کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتی ہے جب کہ زیادہ تر امور میں وفاقی آئین کے نفاذ کو جموں کشمیر میں ممنوع کرتی ہے۔ اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ کشمیر  میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے۔ بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست جموں کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔

اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے بہت سے بنیادی امور جن میں شہریوں کے لیے جائداد، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں ان کے قوانین عام بھارتی قوانین سے مختلف ہیں۔

 مہاراجا ہری سنگھ کے 1927ء کے باشندگان ریاست قانون کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے چنانچہ بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں و کشمیر کے اندر جائداد نہیں خرید سکتا، یہ امر صرف بھارت کے عام شہریوں کی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بھارتی کارپوریشنز اور دیگر نجی اور سرکاری کمپنیاں بھی ریاست کے اندر بلا قانونی جواز جائداد حاصل نہیں کر سکتی ہیں۔

 اس قانون کے مطابق ریاست کے اندر رہائشی کالونیاں بنانے اور صنعتی کارخانے، ڈیم اور دیگر کارخانے لگانے کے لیے ریاستی اراضی پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی قسم کے تغیرات کے لیے ریاست کے نمائندگان کی مرضی حاصل کرنا ضروری ہے جو منتخب اسمبلی کی شکل میں موجود ہوتے ہیں...

اب اس آرٹیکل کو ختم کرنے کے بعد جموں وکشمیر کی یہ حیثیت باقی نہیں رہے گی ....

!دفعہ 35 اے  

انڈیا کے آئین میں جموں کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ 35-A کا مسئلہ کشمیر سے بھی پرانا ہے۔ اس قانون کی رُو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری حاصل نہیں کرسکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔

یہ قوانین ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے سنہ 1927 سے 1932 کے درمیان مرتب کیے تھے اور ان ہی قوانین کو سنہ 1954 میں ایک صدارتی حکمنامہ کے ذریعہ آئین ہند میں شامل کرلیا گیا۔
انڈیا کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) گذشتہ 70 سال سے کشمیر سے متعلق انڈین آئین میں موجود اُن تمام حفاظتی دیواروں کو گرانا چاہتی تھی  جو جموں کشمیرکو دیگر بھارتی ریاستوں سے منفرد بناتی ہیں۔ مثال کے طور پرجموں کشمیر کا اپنا آئین ہے اور ہندوستانی آئین کی کوئی شق یہاں نافذ کرنی ہو تو پہلے مقامی اسمبلی اپنے آئین میں ترمیم کرتی ہے اور اس کے لیے اسمبلی میں اتفاق رائے ضروری ہوتا ہے۔

حالانکہ کشمیر کی خودمختاری کی اب وہ صورت نہیں رہی جو 70 سال قبل تھی۔ یہاں پاکستانی زیرانتظام کشمیر کی طرح وزیراعظم ہوتا تھا اور صدرریاست ہوتا تھا۔ لیکن اب دیگر ریاستوں کی طرح گورنر اور وزیراعلی ہوتا ہے۔ تاہم 35-A کی آئینی شق ابھی بھی ریاست کے باشندوں کو غیرکشمیریوں کی بے تجاشا آبادکاری سے بچارہی ہے۔ اسی شق کو بی جے پی کی حامی این جی او 'وی دا سٹیزنز' نے سپریم کورٹ میں چلینج کیا تھا 

اب اس قانون کے ختم ہونے کے بعد کشمیری فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہوجائیں گے، کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں غیرمسلم آبادکار یہاں بس جائیں گے، جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہوجائیں گے.


No comments:

Post a Comment

A message to Tariq Jameel Sahab

A message to Tariq Jamil Sahab          کسی عرب ملک کے پوش علاقے کی مسجد کے خطیب صاحب نے منبر پر چڑھ کر "کفایت شعاری، صبر اور پرہ...